جھوٹی خبر اور غلط معلومات سے کیسے نمٹیں

Hao blong faenem mo luk save kiaman nius o storian long Ostrelia

Hao blong faenem mo luk save kiaman nius o storian long Ostrelia Source: iStockphoto / nicoletaionescu/Getty Images

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

اس دور میں جہاں معلومات روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں، سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ایسی خبر یا معلومات جسے جھوٹی خبر، غلط معلومات، یا نامکمل معلومات کے طور پر لیبل کیا گیا ہو ، کے نتائج ایک جیسے ہیں - یہ توڑ مروڑ یا مسخ کر کے پیش کی گئی معلومات لوگوں کی رائے، عقائد، اور یہاں تک کہ اہم فیصلوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔


Key Points
  • مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آسٹریلین دنیا کی ان اقوام میں شامل ہیں جو غیر مستند معلومات دیگر لوگوں سے شئیر کر لیتے ہیں۔
  • یکنالوجی کی ترقی نے آن لائن رسائی حاصل کرنے پر جھوٹی خبروں کو بطور سچ پیش کرنا آسان کر دیا ہے۔
  • جھوٹی خبریں انسانی رویے کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتی ہیں خصوصا جب یہ پہلے سے موجود عقائد یا شبہات کی تصدیق کرتی ہے۔
آج کے جدید اور ڈیجیٹل دور میں غلط معلومات تک رسائی ایک اہم مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے

کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر سشی داس کا کہنا ہےکہ ، آرایم ائی ٹی یونیورسٹی میں واقع حقائق کی جانچ کرنے والے یونٹ کے مطابق، غلط معلومات سے مراد وہ غیر مستند معلومات ہے جسے لوگ یہ جانے بغیر شیئر کرتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔

دوسری طرف، غلط معلومات، وہ جھوٹٰی اطلاعات ہیں جو لوگ جان بوجھ کر دوسروں کو دھوکہ دینے کے لیے خود بناتے ہیں۔ ایسا مختلف وجوہات کی بناء پر کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ مذاق، سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینا، یا کلکس کے ذریعے پیسہ کمانا۔

فیکٹ چیک کرنے والے جیسے سشی داس اور ان کی ٹیم سوشل میڈیا پر وائرل مواد کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ان پوسٹس کی نشاندہی کی جا سکے جن میں غلط معلومات یا غیر مستند معلومات ہو سکتی ہیں۔
اس کے بعد وہ مواد کی درستگی کی تصدیق کے لیے مکمل تحقیق کرتے ہیں۔ اس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ عوام تک درست اور مستند معلومات پہنچ رہی ہے۔

محترمہ داس آسٹریلیا میں غلط معلومات اور غیر مستند معلومات کے ملے جلے پلندے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تازہ خبروں کی سرخیاں اکثر سوشل میڈیا پر غلط معلومات کی فراہمی کا باعث بنتی ہیں۔

"مثال کے طور پر، اس وقت، روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چل رہی ہے۔ اس لیے اس جنگ سے متعلق غلط معلومات اور غیر مستند معلومات موجود ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ ہے، لہذا، ہمیں فلسطین اور اسرائیل کی صورت حال مل گئی ہے، اس حوالے سے بھی بہت ساری غلط معلومات اور غیر تصدیق شدہ معلومات موجود ہیں۔ ہم باقاعدگی سے مالی گھپلے اور صحت سے متعلق غلط معلومات بھی دیکھ رہے ہیں،" محترمہ داس کہتی ہیں۔
Left to right: Dr Timothy Graham, RMIT FactLab Sushi Das, Dr Darren Coppin.
Left to right: Dr Timothy Graham, RMIT FactLab Sushi Das, Dr Darren Coppin.

سوشل میڈیا کے اثرات 

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایک اہم اشتہاری ٹول کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ وسیع پیمانے پر مواصلات اور خیالات کے تبادلے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور صارف کے مواد کو ان کی ترجیحات اور سرگرمیوں کی بنیاد پر اپنی مرضی کے مطابق بنانے کے لیے جدید الگورتھم استعمال کرتے ہیں، جس سے مصروفیت اور مطابقت میں اضافہ ہوتا ہے۔

تاہم، میں ڈیجیٹل میڈیا کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ٹموتھی گراہم بتاتے ہیں کہ یہ الگورتھم کس طرح نادانستہ طور پر غلط خبریں اور غلط معلومات پھیلا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر گراہم کا کہنا ہے کہ "لوگوں کی فیڈز میں پر ایسا مواد آ سکتا ہےجوانہیں حقیقت پر مبنی محسوس ہو ہے۔ انسان سخت محنتی اور سماجی اور جذباتی حساسیت سے جڑا ہوتا ہے سماجی میڈیا پر ایسا بھرپور مواد ترتیب دیا گیا ہے جو ضروری نہیں کہ حقیقت پر مبنی ہو ، لیکن ممکن ہے کہ پڑھنے اور دیکھنے والے کو حقیقت لگے،" ڈاکٹر گراہم کہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مواد کو بڑھاتے اور فروغ دیتے ہیں، جس سے صارف کے اندر مضبوط ردعمل پیدا ہوتے ہیں۔ لوگ ایسے مواد کا اشتراک کرتے ہیں جو ایک مضبوط جذباتی ردعمل کا باعث بنتا ہے، چاہے مثبت ہو یا منفی۔

غلط معلومات مختلف ذرائع سے آ سکتی ہیں، جیسے کہ حقیقی غلطیاں، جانبدارانہ رپورٹنگ، سنسنی خیزی، اور جان بوجھ کر سیاسی، نظریاتی، یا معاشی ہیرا پھیری۔

سازشی نظریات میں اکثر خفیہ سازشوں کے بارے میں پیچیدہ کہانیاں شامل ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس، غلط معلومات میں جھوٹی یا گمراہ کن معلومات کی ایک وسیع رینج شامل ہوتی ہے جس میں سازشی عناصر شامل ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی ۔

ایک سازشی تھیوری کی ایک مثال جس کی آر ایم آٗی ٹی فیکٹ لیب ٹیم نے تفتیش کی وہ لباس کے کے بارے میں تھی۔

تھیوری میں دعویٰ کیا گیاتھا کہ یہ اقدام، جس کا مقصد فیشن انڈسٹری کو مزید پائیدار بنانا ہے، ، بینکوں اور حکومت کی جانب سے لوگوں کو ٹریک کرنے اور ان پر قابو پانے کے لیے ایک چال تھی۔

"یار رکھیں یہ معلومات غلط ہے۔ یہ کوڈز آپ کو آئٹم کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہیں، یہ کہاں بنایا گیا تھا، آیا اسے سچائی کو جانچ کر بنایا گیا تھا، دھونے کی ہدایات، اور کپڑے کی تفصیلات۔ لیکن یقیناً، ایسے لوگ ہیں جو بحث کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ آپ کا سراغ لگانے کے لئے کیا جارہا ہے،" محترمہ داس کہتی ہیں۔
Woman scanning a QR code from a label.
A woman is scanning a QR code from a label in a clothing store with her smartphone. Source: iStockphoto / javitrapero/Getty Images/iStockphoto

غلط معلومات کا اثر

سڈنی میں مقیم سائنس دان ڈاکٹر ڈیرن کوپن جو انسانی رویوں پر تحقیق کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ زبان کے ارتقاء سے ہی غلط معلومات کا عنصر انسانی معاشرے میں موجود ہے۔

تاہم، یہ اب اہم سماجی اثرات کے ساتھ ایک زیادہ مقبول مسئلہ ہے۔

ماضی میں، لوگوں کو اپنے حقائق، سچائیاں، اور عقائد ان کی مقامی برادری، خاندان اور ثقافت سے ملتے تھے۔ آج کل، ہم پوری دنیا اور مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔

" کے مطالعے کے مطابق، آسٹریلین دنیا غلط معلومات آگے بڑھانے میں سر فہرست ہیں، 80 فیصد آسٹریلین ایسے مضمون بھی شئیرکریں گے جسے وہ مشکوک بھی سمجھتے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ یہ اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر رہا ہے جس کا ہم جعلسازی کے ساتھ سامنا کر رہے ہیں۔ خبریں اور غلط معلومات،" ڈاکٹر کوپن کہتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں، غلط معلومات یا جھوٹی خبریں پہلے سے موجود عقائد یا شبہات کی تصدیق کر کے انسانی رویے کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتی ہیں۔ یہ اثر ووٹنگ تک پھیل سکتا ہے، جہاں عوامی پالیسی جھوٹی خبروں سے متاثر ہونے والے رویوں کی عکاسی کرتی ہے، اور سیاستدان عوام کو اپیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

"خاص طور پر کووڈ کے دوران، ہم نے کووڈ کے ہر پہلو پر غلط معلومات کے ساتھ بہت سارے مسائل دیکھے۔ اور کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ ہم صرف ایک وبا سے نہیں لڑ رہے ہیں - ہم ایک انفوڈیمک سے لڑ رہے ہیں،" ڈاکٹر کوپن یاد کرتے ہیں۔ .

ڈاکٹر کوپن ان وجوہات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں جن کی وجہ سے انسان جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر جھوٹی خبریں پھیلا سکتے ہیں۔
جعلی غیر مستند خبریں انسانوں کی غیر یقینی صورتحال سے نفرت پر کھیلتی ہیں۔ ہم مکمل طور پر حفاظت اور کنٹرول کے احساس کے خواہاں ہیں۔ ہم اس غیر یقینی صورتحال کو ختم کرنے کے لیے متحرک ہیں۔ تو، ہم جوابات تلاش کرتے ہیں۔ اور اگر وہ آسانی سے دستیاب نہیں ہیں، تو ہم خالی جگہوں کو پُر کرتے ہیں۔ لہذا، جہاں کوئی معلومات دستیاب نہ ہو ہم وہاں بھی معلومات حاصل کرنے کے خواہاں رہتے ہیں
طرز عمل کے سائنسدان، ڈاکٹر ڈیرن کوپن
ان کے بقول، انسانوں کا رجحان ہمارے ارتقائی ماضی میں گہرائی سے جڑا ہوا منفی نقطہ نظر ہے۔ ہماری بقا کی جبلت ہمیں فطری طور پر مایوسی کی طرف مائل کرتی ہیں - خطرے سے ہوشیار رہنے والوں کے لئے مخالف ماحول میں زندہ رہنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر کوپن کہتے ہیں، "اگر آپ کبھی نے بیرون ملک رہتے ہوئے کبھی بھی کسی آسٹریلین سے بات کی ہے ، تو وہ اکثر غیر ملکیوں کے ساتھ جو باتیں کرتے ہیں وہ آسٹریلیا میں موجود مکڑیاں، سانپ اور شارک ہیں، جبکہ اس کے برعکس (ان چیزوں کے ساتھ ساتھ ) آسٹریلیا میں قدرتی خوبصورتی اور مواقع بے تحاشہ موجود ہیں ۔"

 جھوٹی خبریں یا غلط معلومات پھیلانے کی ایک اور وجہ ہمارا "تصدیقی تعصب"(یعنی خبر کی سداقت سے متعلق تعصب) ہے۔

 ڈاکٹر کوپن کے مطابق، اگر ہم کسی ایسے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جو ویکسینیشن کی مخالفت کرتا ہے، تو ہم ایسی معلومات کی تلاش کرتے ہیں جو ہمارے عقائد کے مطابق ہو، اور یہی ہمیں یاد رہتا ہے۔

 وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسی معلومات کو یاد رکھنے کا زیادہ امکان ہے جو ہمارے پہلے سے موجود عقائد کی تصدیق کرتی ہے، جو مزید پولرائزیشن اور انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہے۔

 ڈاکٹر کوپن یہ بھی بتاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی، جس نے غلط معلومات کے تیزی سے پھیلاؤ کی ایک اور وجہ کے طور پر، آن لائن تک رسائی کے وقت جھوٹی خبروں کو حقیقی ظاہر کرنا آسان بنا دیا ہے۔

"جب آپ کسی کے ساتھ آمنے سامنے ہوتے ہیں، تو آپ ان کی بدتمیزی یا ان کے عجیب و غریب رویے یا پسینے والی ہتھیلیوں سے بتا سکتے ہیں؛ کہ وہ ناقابل اعتبار ہیں یا جو وہ کہہ رہے ہیں اس پر یقین نہیں کیا جا سکتا،" ڈاکٹر کوپن وضاحت کرتا ہے
Puzzled Businesswoman reading a Text Message on her Smartphone
Misinformation can come from various sources, such as genuine mistakes, biased reporting, sensationalism, and intentional political, ideological, or economic manipulation. Source: iStockphoto / nicoletaionescu/Getty Images

جعلی خبروں کی شناخت کرنا

آج کی دنیا میں غلط معلومات کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے، سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔

خبروں کو اسپاٹ کرنے اور اس کی تصدیق کرنے کی مہارت کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔

سشی داس حقیقی خبروں کو جھوٹی خبروں سے ممتاز کرنے کے لیے اپنی اعلیٰ حکمت عملی کا اظہار کرتی ہیں۔

"آپ صرف کچھ کلیدی الفاظ سرچ کر سکتے ہیں، ایک نیا ٹیب کھول سکتے ہیں، ان مطلوبہ الفاظ کو ایک نئے ٹیب میں ڈالیں، اور سرچ کریں کہ ان مطلوبہ الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے آپ کو کیا دوسری چیزیں (معلومات) مل سکتی ہیں۔ آپ لفظ کی حقیقت کی جانچ کے ساتھ کچھ کلیدی الفاظ بھی ڈال سکتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا کوئی اس موضوع کے بارے میں پہلے ہی ایک مضمون یا حقائق کی جانچ کرنے والا مضمون لکھ چکا ہے۔"

محترمہ داس یہ بھی تجویز کرتی ہیں کہ اگر آپ کسی تصویر کو دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کیا یہ درست ہے تو آپ گوگل پر تصویر کو تلاش کرنے کا آپشن حاصل کرنے کے لیے گوگل پر دائیں کلک کر سکتے ہیں۔

وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ غلط معلومات کے پھیلاؤ سے نمٹنے کا ایک مؤثر طریقہ یہ ہے کہ شہری مکالمہ کیا جائے، توہین انگیز باتوں کے استعمال سے گریز کیا جائے اور وقت کے ساتھ ساتھ حقائق پر مبنی معلومات کو مسلسل پیش کیا جائے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تبدیلی ایک بتدریج عمل ہے جس کے لیے صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر کوپن مشتبہ خبروں یا معلومات کو آن لائن شیئر کرنے سے پہلے باریک بینی سے جائزے کا مشورہ دیتے ہیں۔

"رکو اور سوچو، میں یہ بات عوام کے سامنے بار بار دہرانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو یقین نہیں ہے، تو براہ کرم چیزوں (معلومات اور خبر) کو آگے مت بھیجیں اور شیئر نہ کریں کیونکہ آپ اس جھوٹ کے پھیلاؤ میں حصہ دار بن رہے ہیں۔ غلط معلومات کا اثر۔ اور دوسرا، اپنی تلاش کی اصطلاح کے تعصبات سے ہوشیار رہیں۔." 
Ol yangfala oli stap yusum phone blong olgeta long wan bikfala city
Experts believe the challenges of combating misinformation is set to grow with AI. Credit: We Are/Getty Images

مستقبل کے رجحانات

جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرتی ہے، غلط معلومات کا پھیلاؤ وسیع ہوتا ہے۔

پروفیسر ٹموتھی گراہم بتاتے ہیں کہ ہمیں اس بدلتی ڈیجیٹل دنیا میں مستقبل کے کن چیلنجوں کا اندازہ لگانا چاہیے۔

ان کا کہنا ہے کہ جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جنس( ) کی طرف سے درپیش سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت ایسا مواد بنا سکتی ہے جو بظاہر کسی انسان کا لکھا ہوا ہو اور پہلی نظر میں یہ انتہائی قابلِ یقین ہو۔

"یہ صرف متن نہیں ہے بلکہ اس میں تصاویر بھی ہیں۔ ایک حقیقی چیلنج جو اب سامنے آرہا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس صرف اے آئی سے تیار کردہ مواد کا سیلاب ہے جو کہ دیگر عام معلومات میں گھل مل رہا ہے، اور حقائق پر منبی درست معلومات اور تساویر کی شناخت مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے ،" ڈاکٹر گراہم کہتے ہیں۔

شئیر