میڈیا ورکرز سڑکوں پر: میڈیا انڈسٹری میں ملازمین کی برطرفی کی لہر

NINE NEWSPAPERS STRIKE MELBOURNE

Journalists employed by Nine Publishing on strike outside their Docklands office in Melbourne Source: AAP / DIEGO FEDELE/AAPIMAGE

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

میڈیا انڈسٹری یا ذرائیع ابلاغ کے شعبے میں ملازمین کی برطرفیوں کی حالیہ لہر پر صحافی اور میڈیا ملازمین احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت جب آسٹریلین کارکنان اپنے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں، میڈیا کے شعبے میں ڈرامائی تبدیلی آ رہی ہے، جس کے بڑا محرکات میں ٹیکنالوجی کا دخل سب سے ذیادہ ہے۔


میڈیا انڈسٹری یا ذرائیع ابلاغ کے شعبے میں ملازمین کی برطرفیوں کی حالیہ لہر پر صحافی اور میڈیا ملازمین احتجاج کر رہے ہیں ان حالیہ چھانٹیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت جب آسٹریلین کارکنان اپنے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں، میڈیا کے شعبے میں ڈرامائی تبدیلی آ رہی ہے، جس کے بڑا محرکات میں ٹیکنالوجی کا ڈکل سب سے ذیادہ ہے۔
نائن نیٹ ورک کے کارکنان اپنا احتجاج شروع کرنے کے لیے سڈنی اور میلبورن کی سڑکوں پر نکل آئے۔
یہ احتجاج مہنگائی کے اضافے کے باعث تنخواہ میں اضافے کی مانگ پرنیٹ ورک کی منیجمنٹ کے ساتھ ناکام مذاکرات کے بعد ہوا ہے ۔
[[MEAA]] انٹرٹینمنٹ اور آرٹس الائنس کے کارکنان کی یونین
راچیل ڈیکسٹر میلبورن میں دی ایج کی صحافی ہیں۔وہ مہنگائی پر میڈیا مالکان کے ردعمل پر مایوس ہیں۔ کے مندوب
یہ ہڑتال نائن انٹرٹینمنٹ گروپ کی جانب سے سلسلہ وار برطرفی اور ان کے زیر ملکیت متعدد اشاعتوں کے بند ہونے کے بعد ہوئی ہے۔
کم از کم 200 افراد کو گروپ سے برطرف کیا گیا ہے، نیٹ ورک نےنوجوانوں کی کئی آن لائن اشاعتوں کے ساتھ اپنے معاہدوں کو ختم کیا جن میں کوٹاکو، وائس، گیزموڈو، ریفائنری 29 اور لائف ہیکر شامل ہیں۔
جن ملازمین کی نیٹ ورک نے ملازمت برقرار رکھی ہے انکا دعویٰ ہے کہ نائن نیٹ ورک مشکل حالات میں بھی منافع کما رہا ہے اس لئے محترمہ ڈیکسٹر اپنی تنخواہ میں اضافے کی درخواست کو مسترد کر نے کو ناقابل معافی قرار دیتی ہیں۔
نائن نے رپورٹر کے ڈھانچے کی تبدیلی کا بھی اعلان کیا ہے جس کے نتیجےمیں مزید ملازمتیں ختم ہوئی ہیں ۔
کوٹاکو اور پیڈسٹیرین کی سابقہ صحافی کورٹنی اسمتھ بھی اس برطرفی سے متاثر ہوئی تھیں۔
آسٹریلیا میں میڈیا کے بدلتے منظرنامے سے صرف نائن کے کارکن ہی متاثر نہیں ہو رہے ہیں۔
جمعرات (25 جولائی) کو، نیوز کارپوریشن کی رپورٹنگ ٹیم کے طویل عرصے سے صحافیوں کے ایک گروپ کو بھی اخراجات بچانے کی کمپنی کی کوشش کے حصے کے طور پر نکال دیا گیا ہے۔ نیوز کارپ کے مختلف شعبوں کے صحافی ان لوگوں میں شامل تھے جنہیں برطرف کیا گیا ہے۔
نیٹ ورک ٹین، سیون ویسٹ گروپ اور آسٹریلیا میں دیگر میڈیا اداروں کے کارکنان کو بھی اس سال برطرفی کا سامنا رہا۔
کوئینز لینڈ کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی میڈیا پروفیسر، امانڈا لوٹز کہتی ہیں کہ کچھ عرصے سے میڈیا ملازمین کی برطرفی کا رحجان پیدا ہوا ہے۔
لیکن یہ صرف اشتہارات کی آمدنی کی کمی نہیں ہے جس سے نمٹنے کے لیے نیوز مینیجرز کو دباؤ کا سامنا رہا ہے۔
آسٹریلیا کی میڈیا تنظیموں اور سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس کے درمیان جدوجہد طویل اور مہنگی رہی ہے۔
اپنے تازہ ترین اقدام میں، فیس بک کی پیرنٹ کمپنی میٹا نے فیصلہ کیا کہ وہ نیوز میڈیا بارگیننگ کوڈ کے تحت اپنے معاہدوں کی تجدید نہیں کرے گی، جس سے خبر رساں اداروں کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔
بارگیننگ کوڈ وفاقی حکومت نے 2021 میں نافذ کیا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ میڈیا کمپنیاں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دوبارہ شائع ہونے والی کہانیوں سے منافع میں حصہ لے سکیں۔
پروفیسر لوٹز کا کہنا ہے کہ ضابطہ شروع سے ہی ناکام ہو گیا تھا کیونکہ اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں تھی۔

آسٹریلیا کی میڈیا انڈسٹری میں کٹوتی کی صورتحال خطے میں جاری بحران کا سلسلہ ہے۔نیوزی لینڈ میں، 2006 سے 2018 کے درمیان ملازمت کرنے والے صحافیوں کی تعداد میں تقریباً 50 فیصد کمی واقع ہوئی، جب کہ کئی اشاعتوں کا حجم کم یا بند کر ہو گیا۔صرف پچھلے 2 سالوں میں، پوری صنعت میں کم از کم 550 افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیونکہ میڈیا اداروں کو کئی ملین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔
M-E-A-A کی ریچل ڈیکسٹر کہتی ہیں کہ صحت مند جمہوریت کا انحصار صحافیوں پر خبریں عوام تک پہنچانے پر کی ذمےداری پر ہے۔لیکن میڈیا کی صنعت میں ملازمتوں کی موجودہ غیر یقینی صورتحال کے باعث صحافت کو ذریعہ معاش بنانے کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ کورٹنی اسمتھ جیسے لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنی توجہ کسی دوسرے شعبے کی طرف مبذول کر رہے ہیں۔دیگر مسائل کے ساتھ مصنوعی ذہانت، یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس جدید دور کی صحافت کے میدان میں ایک اہم عنصر بن گیا ہے۔
خودکار مشینیں لمحوں میں ایسی کہانیوں کو جمع کرنے کے قابل ہو رہی ہیں جن کو مرتب کرنے میں انسانوں کو کئی منٹ لگتے ہیں، جس کے باعث ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے مصنوعی ذہانت کی اپیل بڑھتی جاتی ہے۔لیکن مصنوعی ذہانت کے ٹولز سے بننے والے مواد میں اب بھی آزادانہ سوچ اور تفتیش کرنے کی صلاحیت نہیں ہے
صحافی چاہتے ہیں کہ میڈیا کارپوریشنز مصنوعی ذہانت پر انحصار کے روک تھام کے لئے اقدامات کریں تاکہ وہ اپنے سامعین کا اعتماد برقرار رکھ سکیں۔پروفیسر لوٹز کا کہنا ہے کہ توازن درست کرنے کے لیے ابھی بھی وقت ہے۔
موجودہ مایوس کنُ صورتحال کے باوجود ملک بھر کے صحافتی حلقے بہتری اور استحکام کے لئے پرُ امید ہیں ۔
لیکن اس وقت، ایسا لگتا ہے کہ حالات بہتر ہونے سے پہلے اور خراب ہو سکتے ہیں۔


شئیر